عورت دین کا کام کس طرح کرے

از: مولانا مفتی محمداسماعیل طورو  

 

جو عورت قاریہ ہو وہ عورتوں کا قرآن کی تعلیم درست کرے۔ جو حافظہ ہو وہ مستورات کو حافظہ بنائے۔ اور جو عالمہ ہو وہ مستورات کو شریعت کی حدود کے اندر رکھ کر عالمہ بنائے۔ اور عالم کس کو کہتے ہیں اس کے لیے ہمارا ”عمل بالقرآن“ آرہا ہے وہ دیکھ لیں، لیکن اگر ایک لڑکی نے B.A یا M.A کی تعلیم حاصل کی وہ عالمہ نہیں لہٰذا وہ عالمہ نہیں بناسکتی اور قرآن کا درس بھی نہیں دے سکتی۔ علم نو ماہ کا کام نہیں ہے نہ دو سال بلکہ اس کے لیے ضروری علوم پڑھنے کی ضرورت ہے غور کریں انگلش جاننے والا ڈاکٹری کتب پڑھ کر ڈاکٹر نہیں بن سکتا ورنہ امریکہ اور لندن والے سارے ڈاکٹر ہوتے اور صرف عربی زبان جاننے سے بھی آدمی قرآن و حدیث کا عالم نہیں بنتا۔ جیساکہ بعض جگہوں میں بورڈ لگے ہوتے ہیں ”آئیے عربی سیکھئے اور قرآن سمجھئے“ ورنہ عربی ممالک والے سارے عالم ہوتے لیکن وہاں باقاعدہ علم کے لیے دس بارہ سالہ کورس ہوتا ہے، میڈیکل پروفیسر ڈاکٹروں کو پڑھاسکتا ہے لیکن کمپاؤنڈر جاہلوں کو ڈاکٹری اصول و ضوابط اور طریقہ علاج نہیں پڑھ سکتا۔ ہرگز نہیں اسی طرح نو دس ماہ سے آدمی عالم نہیں بن سکتا۔ بلکہ قرآن ٹھیک کرسکتا ہے اور کچھ نہ کچھ ترجمہ پڑھ سکتا ہے۔ لہٰذا دنیاوی تعلیم یافتہ یا کچھ نہ کچھ قرآن کو سمجھنے والی درس نہ دے بلکہ وہ دین کا کام اس طرح کرے کہ ہر جگہ بچیوں کے دینی مدارس موجود ہیں وہاں سے کسی عالمہ کا اپنے محلے میں پردے کے ساتھ لے آنے اور لے جانے کا انتظام کرے اور وہ مستورات کو ماہانہ درس دے تاکہ عورتوں میں دین کی سمجھ آجائے اور اگر کوئی عالمہ بننا چاہے وہ مدرسہ میں داخل ہوجائے اوراگر ایسی کوئی عالمہ یا عالم دین میسر نہ ہو، تو پھر دنیاوی تعلیم یافتہ بھی قرآن کا درس دے سکتی ہے لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں:

۱-  کسی جید عالم دین کی تفسیر مستورات کو پڑھ کر سنائے۔ سادہ قرآن سے درس نہ دے۔

۲- درس کے بعد اپنی تشریح نہ کرے۔

۳-                مسئلے علماء سے پوچھے جائیں ددرس والی سے نہ پوچھے جائیں۔

۴-                جو مستورات درس کے لیے آئیں وہ باپردہ آئیں اگر گھر فاصلہ پر ہو تو محرم کے ساتھ آئیں۔

۵- درس کا ٹائم دن کا ہو۔

۶- یہ درس کبھی کبھی کیا جائے کم از کم مدت ماہ میں ایک بار جلدی جلدی درس کرانے سے بار بار عورت کے نکلنے کی وجہ سے نقصانات کا خطرہ ہے۔

۷-                ٹیپ ٹاپ سے اور مہنگے ہوٹلوں میں درس کا انتظام نہ کیاجائے․․․ جہاں اکثر فاسق فاجر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔

۸-                درس صرف ایک قابل اعتماد گھر میں دیا جائے یہ نہیں کہ آج عورتیں ادھر جارہی ہیں اور کل اُدھر۔

۹- خاوند یا سرپرست کی اجازت ہوورنہ اس کی اجازت کے بغیر دین کی مجلس میں جانا بھی غلط ہے ہاں اگر کسی ایسے شرعی مسئلہ کی ضرورت پڑگئی جس پر عمل کرنا فرض ہوتو اس کے لیے مرد سے معلوم کرایا جائے اگر وہ نہ پوچھ آئے تو پھر خود پردے میں عالم سے پوچھ کر آئے۔ ساری مستورات جب اس کے مطابق چلیں گی تو انشاء اللہ ہم کوکوئی فتنہ گمراہ نہیں کرسکتا۔

* * *

--------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء